Sunday, October 31, 2021

zara Thehro

Zara thehro?
chalay jana..
Mujhe kuch tum se kehna hai.
Bahut waqt nahi lena mukhtasir si baat karni hai.
Na dukh apny suna -ny-hai
Na koi faryad karni hai.
Na yai maloom karna hai k.
Halaat kaisay hai?
Tumhare HUMsaffer tumhare sath kaisay hai?
Na yai maloom karna hai k din raat kaisay hai?
Mujhe bas itna hi kehna hai.
MUJHE TUM YAAD AATE HO.
BAHUT HI YAAD ATTE HO

Fri 5 Jul 2013

meri masroofiyat. my own poetry

Wrote this shayri 10 years ago on 29-Aug-2011. When I got new job and she was complaining about my busy schedule.

kal raat sote mein jab uski achanak call ayi,
mei neend se utha aur becheni se hello kaha,
kuchh dino ki rafaqt se woh naraaz thi,
meree nayi nokri ki masroofiyat se woh bezaar thi,
mujhse kehne lagi !! 
dekho ye masroofiyat ke bahane kisi aur se karo,
ye sms per pyar ab kisi aur se jatao,
mujhe ab tumhen chhorna hoga,
tumse taaluq ab torna hoga,
boht waqt bitaya humne ikhathy,
ab door reh ker baqi waqt bitana hoga,
tumhn chhorna meri ab majboori hy,
aur uss majboori ko mujhe nibhana hoga,
meine kaha jana dekho rishta toro mat,
mujhe beech raah mein PLEASE yun choro mat,
tum kaho to mei wesa ho jaun,
apna sara waqt tumhre saath bitaun,
usne kaha dekho ab koi raasta nahi,
tumhra ab mujhse koi vaasta nahi,
mujhe ghusa aya aur bezari se kaha,
tumhn mere jesa ab milega kahan,
tum khush ho to dukh mujhe bhi nahi,
tum masroof ho to faraghat mujhe bhi nahi,
jese tumhre dost boht sare hain,
mujhe bhi chahne wale boht sare hain,
chalo ye taluq torr dete hain,
khud ko apne haal pe chhor dete hain,
ye keh ker meine call dissconnect kerdi,
phir har raat mere kamre mein siskiyan goonjti rahi...

Tuesday, October 19, 2021

مذہبی ‏فلسفہ

مذہب کی سب سےزیادہ خطرناک تعلیم جو دی جاتی ہےوہ ہےیہ "دنیا فانی ہے" اصل زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی اور اسی کی "فکر کرو"  گویا موجودہ دنیا میں انسانوں کا یہ اجتماع سرائے کے مسافر ہیں جنہیں صبح یا شام منتشر ہو جانا ہےایسی صورتحال میں زندگی کے لیےکون سا ترقی کا جذبہ کارآمد ہوگا؟ 

I am ADOPTED - my own poem

I am adopted,
I am a bridge,
Between to home,
Within two families,
Withing my own wonders,
Today I decided,
I am going to break my bridge,
I am going to break my bricks,
Yeah ! I am not accepting those,
Who threw me away,
And now they don't accepting me,
Who raise me any way... 

My own poem- Naeem Mustafa Mahar

زندگی ‏کے ‏میدان ‏میں ‏ساتھ ‏دینے ‏والوں ‏کو ‏مت ‏بھولیں

‏1937 میں انگلینڈ میں چیلسی اور چارلٹن کے مابین فٹ بال کا میچ 60 ویں منٹ میں شدید دھند کی وجہ سے رک گیا۔ لیکن چارلٹن کے گول کیپر سیمے بارٹرم کھیل کو روکنے کے 15 منٹ بعد بھی گول کے اندر موجود تھے-
کیونکہ اس نے اپنے گول پوسٹ کے پیچھے ہجوم کی وجہ سے ریفری کی سیٹی نہیں سنی تھی۔ ‏وہ اپنے بازوؤں کو پھیلائے ہوئے اور اپنی توجہ مرکوز کرکے گول پوسٹ پر کھڑا رہا- غور سے آگے دیکھتا رہا- پندرہ منٹ بعد جب سٹیڈیم کا سیکورٹی عملہ اس کے پاس پہنچا اور اسے اطلاع دی کہ میچ منسوخ کردیا گیا ہے- تو سام برترم نے شدید غم کے ساتھ کہا ”کتنے افسوس کی بات ہے کہ ‏جن کے دفاع کے لئے میں کھڑا تھا- وہ مجھے بھول گئے“-

زندگی کے میدان میں کتنے ایسے ساتھی موجود ہوتے ہیں جن کے مفادات کے دفاع کیلۓ ہم نے اپنے وقت ,صلاحیت اور تواناٸی صرف کۓ ہوتے ہیں- لیکن حالات کی دھند میں وہ ہمیں بھول جاتے ہیں۔ ‏دوست اور ساتھی چاہے کھیل کے میدان کے ہوں یا زندگی کے حالات و واقعات کے سرد اور گرم میں ہمیشہ انہیں یاد رکھ کر  ساتھ لیکر چلنا چاہۓ ایک اعلیٰ ظرف انسان کی طرح۔


انصاف--تاریخ--حق--سچ

سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اُن کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا، یونان کی اشرافیہ جیت گئی، سقراط کی دانش ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔ اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، اسے برہنہ کرکے گھوڑوں کے سموں کے ساتھ باندھ کر لندن کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر ناقابل بیان تشدد کے بعد اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا، ولیم والس ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی، چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لئے قید کی سزا سنا دی، یہ سزا 1633میں سنائی گئی، گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642 میں وہیں اُس کی وفات ہوئی، پادری جیت گئے سائنس ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔جیورڈانو برونو پر بھی چرچ کے عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنا یاگیا، برونو نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی تحقیق عیسائیت کے عقیدہ خدا اور اُس کی تخلیق سے متصادم نہیں مگر اُس کی بات نہیں سنی گئی اور اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لئے کہا گیا، برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا، 8فروری1600کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا تو برونو نے تاریخی جملہ کہا ’’میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوں جتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔‘‘برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ پوپ جیت گیا، برونو ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔حجاج بن یوسف جب خانہ کعبہ پر آگ کے گولے پھینک رہا تھا تو اُس وقت ابن زبیرؓ نے جوان مردی کی تاریخ رقم کی، انہیں مسلسل ہتھیار پھینکنے کے پیغامات موصول ہوئے مگر آپ ؓ نے انکار کردیا، اپنی والدہ حضرت اسماؓ سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا کہ اہل حق اس بات کی فکر نہیں کیا کرتے کہ ان کے پاس کتنے مددگار اور ساتھی ہیں، جاؤ تنہا لڑو اور اطاعت کا تصور بھی ذہن میں نہ لانا، ابن زبیر ؓ نے سفاک حجاج بن یوسف کا مقابلہ کیا اور شہادت نوش فرمائی، حجاج نے آپؓ کا سر کاٹ کر خلیفہ عبد المالک کو بھجوا دیا اور لاش لٹکا دی، خود حضرت اسماؓ کے پاس پہنچا اور کہا تم نے بیٹے کا انجام دیکھ لیا، آپؓ نے جواب دیا ہاں تو نے اس کی دنیا خراب کر دی اور اُس نے تیری عقبیٰ بگاڑ دی۔ حجاج جیت گیا، ابن زبیر ؓ ہار گئے۔ وقت گزر گیا۔ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ ؒکو قاضی القضاۃ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا، اس نے انہیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کردیا، مقصد انکی ہتک کرنا تھا بعدازاں منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا، بالآخر قید میں ہی انکو ذہر دے کر مروادیاگیا، سجدے کی حالت میں آپکا انتقال ہوا، نماز جنازہ میں مجمع کاحال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی، منصور جیت گیا امام ابو حنیفہ ہار گیا، وقت گزر گیا۔
تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ یونان کی اشرافیہ سقراط سے ذیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کس سچ زیادہ طاقتور تھا۔ ولیم والس کی دردناک موت کے بعد اسکا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہیے تھا مگر آج ابیرڈن سے لے کر ایڈنبرا تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں ہیں، تاریخ میں ولیم والس امر ہوچکا ہے۔ گیلیلیو پر فتوے لگانے والی چرچ اپنے تمام فتوے واپس لے چکی ہے۔ رومن کیتھولک چرچ نےساڑھے تین سوسال بعد یہ تسلیم کیا کہ گیلیلیو درست تھا اور اس وقت کے پادری غلط۔ برونو کو ذندہ جلانے والے آج بھی یہ بات مانتے ہیں کہ برونو کا علم اور نظریہ درست تھااسے اذیت ناک موت دینے والے تاریخ کے غلط دوراہے پر کھڑے تھے۔
تاریخ میں حجاج بن یوسف کو آج ایک ظالم اور جابر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہےجسکی گردن پر ہزاروں بیگناہ مسلمانوں کا خون ہے جبکہ حضرت عبداللہ ابن زبیر شجاعت اود دلیری کا استعارہ ہیں، حجاج کو شکست ہوچکی ہےابن زبیر فاتح ہے۔ جس ابوجعفرمنصور نے امام ابو حنیفہ کو قید میں ذہر دے کر مروایااس کے مرنے کے بعد ایک جیسی سو قبریں کھودی گئیں اورکسی ایک قبر میں اسے دفن کردیا گیاتاکہ لوگوں کوپتہ ناں چل سکے کہ وہ کس قبر میں دفن ہیں۔ یہ اہتمام اس خوف کہ وجہ سے کیا گیاکہ کہیں لوگ اس کی قبرکی بیحرمتی ناں کریں گویا تاریخ کا فیصلہ بہت جلد آگیا۔
آج سے سو سال بعد ہم میں سے کوئی ذندہ نہیں رہے گا تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائےآج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہےکہ ہم میں سے کون تاریخ کہ صحیح سمت میں کھڑا ہےاور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر۔۔۔کون حق ک ساتھی ہے اور کون باطل سے کندھا ملائے ہوئے ہے کون سچائی کا عملدار ہے اور کون جھوٹ کی تراویج کررہا ہے کون دیانتدار ہے اور کون بےایمان کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔۔۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو حق اور سچ کا راہی کہتا ہےمگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کیونکہ اگر ہر شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر اس دھرتی سے ظلم اور ناانصافی کو اپنے آپ ختم ہوجانا چاہیے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اس منزل سے کہیں دور بھٹک رہیں ہیں۔
آج سے سو برس بعد جب کوئی مورخ ہمارا حوالہ لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا مگر افسوس اس وقت تاریخ کے بےرحم فیصلے سننے کے لیے ہم میں سے کوئی ذندہ نہیں ہوگا۔ سو آج ہم جس دور سے گزر رہیں ہیں کیوں ناں خود کو ہم ایک بےرحم کسوٹی پر رکھ لیں کہ کہیں ہم یونانی اشرافیہ کے ساتھ تو نہیں کھڑے جنہونے سقراط کو زہر کا پیالہ تھمادیا، کہیں ہم برونو کو ذندہ جلانے والے پادریوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم حجاج کی طرح ظالموں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم ابو حنیفہ اور امام مالک پر کوڑے برسانے والے کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم ابن رشد کے خلاف فتویٰ دینے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے۔۔۔ کہیں ہم تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرکے خود کو غلطی پر تسلیم کرنابڑے ظرف کاکام ہے جسکی آج کل شدید کمی ہے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کس باضمیر نے وقت کو کیسے گزارا ۔۔۔ !!! 

پریشانی-- ‏نمل

لوگ کہتے ہیں روحانی اذیت ذیادہ ہوتی ہے مگر میں آپکو بتاؤں جسمانی اذیت اس سے ذیادہ تکلیف دہ یے۔ اسی لیے تو قیامت کے بعد لوگوں کےلیے جہنم کا وعدہ ہے، جسمانی اذیتوں کی جگہ۔۔۔ یہ نہیں وعدہ کیا گیا کہ مشرکوں کو ڈپریشن ہوگا، یا انکے دل ٹوٹ جائیں گے، انکو طنز و طعنے سے اداس کیا جائے گا۔ بلکہ جسمانی عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
وہ تکلیف وہ اذیت بہت ذیادہ تھی۔
اس لیے میرے منہ سے بس ایک ہی بات نکلتی تھی
"اللہ حساب لے گا"
نمل

Wednesday, October 13, 2021

Don't know either its right or wrong

sometimes you're so desperate to find an answer you'll accept the wrong one

کبھی کبھی آپ جواب تلاش کرنے کے لیے اتنے بےچین ہوتے ہیں کہ آپ غلط جواب کو قبول کرلیتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ جو جواب مجھےملا ہے وہ غلط یے یا صحیح پر آثار اور واقعات تو صحیح بیان کررہیں لیکن کبھی کبھار سب صحیح ہونے کے باوجود غلط ہوتا یے۔ میں اب اس صحیح اور غلط کی الجھن میں الجھ کر رہ گیا ہوں اور اس سے مجھے شاید کبھی کوئی نہ نکال سکے۔

Saturday, October 2, 2021

Dedicating to my beloved brother Imran Mustafa Mahar

Safar to meiney kiya thaa

Warna saz-o-samaan us ke the.

Mei to bass razdaar thaa uskaa

Warna to sare raaz us ke the.

Wo dariya mein piyaasa baytha tha,

Jab ke samandar tamaam us ke the.

Who dhoop main bytha hai Chao'n dene ko

Jab ke darakth sare sayaadaar us ke the.

Aur yun to bazaahir logon main Risq meine baanta tha

Lakin dar parda sare haath us ke the.

Aur Meine jab kamaal bulaandi par jake soncha 

Yeh to sare kamaal us ke the..