Saturday, November 6, 2021

تاریخ کے فیصلے

سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اُن کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا، یونان کی اشرافیہ جیت گئی، سقراط کی دانش ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔ اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، اسے برہنہ کرکے گھوڑوں کے سموں کے ساتھ باندھ کر لندن کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر ناقابل بیان تشدد کے بعد اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا، ولیم والس ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی، چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لئے قید کی سزا سنا دی، یہ سزا 1633میں سنائی گئی، گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642 میں وہیں اُس کی وفات ہوئی، پادری جیت گئے سائنس ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔جیورڈانو برونو پر بھی چرچ کے عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنا یاگیا، برونو نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی تحقیق عیسائیت کے عقیدہ خدا اور اُس کی تخلیق سے متصادم نہیں مگر اُس کی بات نہیں سنی گئی اور اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لئے کہا گیا، برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا، 8فروری1600کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا تو برونو نے تاریخی جملہ کہا ’’میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوں جتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔‘‘برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ پوپ جیت گیا، برونو ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔حجاج بن یوسف جب خانہ کعبہ پر آگ کے گولے پھینک رہا تھا تو اُس وقت ابن زبیرؓ نے جوان مردی کی تاریخ رقم کی، انہیں مسلسل ہتھیار پھینکنے کے پیغامات موصول ہوئے مگر آپ ؓ نے انکار کردیا، اپنی والدہ حضرت اسماؓ سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا کہ اہل حق اس بات کی فکر نہیں کیا کرتے کہ ان کے پاس کتنے مددگار اور ساتھی ہیں، جاؤ تنہا لڑو اور اطاعت کا تصور بھی ذہن میں نہ لانا، ابن زبیر ؓ نے سفاک حجاج بن یوسف کا مقابلہ کیا اور شہادت نوش فرمائی، حجاج نے آپؓ کا سر کاٹ کر خلیفہ عبد المالک کو بھجوا دیا اور لاش لٹکا دی، خود حضرت اسماؓ کے پاس پہنچا اور کہا تم نے بیٹے کا انجام دیکھ لیا، آپؓ نے جواب دیا ہاں تو نے اس کی دنیا خراب کر دی اور اُس نے تیری عقبیٰ بگاڑ دی۔ حجاج جیت گیا، ابن زبیر ؓ ہار گئے۔ وقت گزر گیا۔ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ ؒکو قاضی القضاۃ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا، اس نے انہیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کردیا، مقصد انکی ہتک کرنا تھا بعدازاں منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا، بالآخر قید میں ہی انکو ذہر دے کر مروادیاگیا، سجدے کی حالت میں آپکا انتقال ہوا، نماز جنازہ میں مجمع کاحال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی، منصور جیت گیا امام ابو حنیفہ ہار گیا، وقت گزر گیا۔
تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ یونان کی اشرافیہ سقراط سے ذیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کس سچ زیادہ طاقتور تھا۔ ولیم والس کی دردناک موت کے بعد اسکا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہیے تھا مگر آج ابیرڈن سے لے کر ایڈنبرا تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں ہیں، تاریخ میں ولیم والس امر ہوچکا ہے۔ گیلیلیو پر فتوے لگانے والی چرچ اپنے تمام فتوے واپس لے چکی ہے۔ رومن کیتھولک چرچ نےساڑھے تین سوسال بعد یہ تسلیم کیا کہ گیلیلیو درست تھا اور اس وقت کے پادری غلط۔ برونو کو ذندہ جلانے والے آج بھی یہ بات مانتے ہیں کہ برونو کا علم اور نظریہ درست تھااسے اذیت ناک موت دینے والے تاریخ کے غلط دوراہے پر کھڑے تھے۔
تاریخ میں حجاج بن یوسف کو آج ایک ظالم اور جابر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہےجسکی گردن پر ہزاروں بیگناہ مسلمانوں کا خون ہے جبکہ حضرت عبداللہ ابن زبیر شجاعت اود دلیری کا استعارہ ہیں، حجاج کو شکست ہوچکی ہےابن زبیر فاتح ہے۔ جس ابوجعفرمنصور نے امام ابو حنیفہ کو قید میں ذہر دے کر مروایااس کے مرنے کے بعد ایک جیسی سو قبریں کھودی گئیں اورکسی ایک قبر میں اسے دفن کردیا گیاتاکہ لوگوں کوپتہ ناں چل سکے کہ وہ کس قبر میں دفن ہیں۔ یہ اہتمام اس خوف کہ وجہ سے کیا گیاکہ کہیں لوگ اس کی قبرکی بیحرمتی ناں کریں گویا تاریخ کا فیصلہ بہت جلد آگیا۔
آج سے سو سال بعد ہم میں سے کوئی ذندہ نہیں رہے گا تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائےآج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہےکہ ہم میں سے کون تاریخ کہ صحیح سمت میں کھڑا ہےاور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر۔۔۔کون حق ک ساتھی ہے اور کون باطل سے کندھا ملائے ہوئے ہے کون سچائی کا عملدار ہے اور کون جھوٹ کی تراویج کررہا ہے کون دیانتدار ہے اور کون بےایمان کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔۔۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو حق اور سچ کا راہی کہتا ہےمگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کیونکہ اگر ہر شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر اس دھرتی سے ظلم اور ناانصافی کو اپنے آپ ختم ہوجانا چاہیے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اس منزل سے کہیں دور بھٹک رہیں ہیں۔
آج سے سو برس بعد جب کوئی مورخ ہمارا حوالہ لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا مگر افسوس اس وقت تاریخ کے بےرحم فیصلے سننے کے لیے ہم میں سے کوئی ذندہ نہیں ہوگا۔ سو آج ہم جس دور سے گزر رہیں ہیں کیوں ناں خود کو ہم ایک بےرحم کسوٹی پر رکھ لیں کہ کہیں ہم یونانی اشرافیہ کے ساتھ تو نہیں کھڑے جنہونے سقراط کو زہر کا پیالہ تھمادیا، کہیں ہم برونو کو ذندہ جلانے والے پادریوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم حجاج کی طرح ظالموں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم ابو حنیفہ اور امام مالک پر کوڑے برسانے والے کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم ابن رشد کے خلاف فتویٰ دینے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے۔۔۔ کہیں ہم تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرکے خود کو غلطی پر تسلیم کرنابڑے ظرف کاکام ہے جسکی آج کل شدید کمی ہے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کس باضمیر نے وقت کو کیسے گزارا ۔۔۔ !!!