Friday, February 5, 2016

Tujhe Roz Dekhoon Qareeb Se

Tujhe Roz Dekhoon Qareeb Se
Mere Shouq Bhi Hain Ajeeb Se

Mujhe Mangna Hai Tujh Hi Ko Bus
Apne Rab Aur Us K Habeeb Se

Meri Ankh Main Bhi Hai Aa'jizi
Mere Khuwab Bhi Hain Ghareeb Se

Meri Sab Duaon Ki Dawa Ho Tum
Mile Kya Sakoon Phir Tabeeb Se

Main Boht Khush Hoon Jor Kar
Naseeb Apna Tere Naseeb Se

اشفاق احمد

میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اور بھسم ہوتے دیکھاہے۔ پھر ان کی راکھ
کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھاہے۔ان لوگوں سے بھی ملا
ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 
ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا 
جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے 
ہیں ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپمحبت
کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو
کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے 
ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہر وقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ
رکھتےہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورو، آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں
کہہ سکتے۔
دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص 
ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج
نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ 
نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت 
ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام نجویز نہیں کیا جاسکا۔
اشفاق احمد کے سفرنامے، سفر در سفر سے اقتباس